20 February 2012

ویزا کی آشا…یہ زندگی


کہتے ہیں بچپن کی محبت اور اس سے وابستہ رومانس زندگی بھرانسان کے ساتھ رہتا ہے بالکل اسی طرح انسان آنکھیں کھول کر جس ہوا میں سانس لیتا ہے، جس مٹی کی باس اس کے حواس کا احاطہ کرتی ہے اور جومناظر اس کے ذہن کے پردوں پر نقش ہوتے ہیں، وہ ساری زندگی اس کے لاشعور میں رہتے بلکہ جاگتی آنکھوں اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔وطن اور مٹی کی محبت کوئی شعوری کوشش نہیں ہوتی، یہ انسان کی سائیکی کا حصہ ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ شعور کی آنکھیں ایک نئی سر زمین پر کھولنے کے باوجود میرے دل سے اپنی خوابوں کی سر زمین کشمیر اور سری نگر کو دیکھنے کی حسرت نہیں گئی بلکہ جوں جوں ناامیدی گہری ہوتی جاتی ہے وہ راستے، وہ پل، وہ چشمے، وہ باغات، وہ پہاڑ اور اس سے بڑھ کر وہ ڈل جھیل میری ذہنی طلب کا ایک مستقل حصہ ہیں۔ نہ مل سکنے کے اس دکھ میں ہر بار اپنے والدین کی ذہنی کیفیت ایک کرب بن کر مجھ پر طاری ہو جاتی ہے۔ وہ غریب جنہوں نے واپس لوٹنے کی حسرت میں نئی سر زمین پر کوئی کلیم تک نہیں کیا تھا، بھلا اپنی زمین، گویا اپنی ماں کے ساتھ یہ بد عہدی وہ کیسے کر سکتے ہیں۔واپسی کی اسی حسرت میں وہ غریب تو دنیا سے رخصت ہو گئے، میں نے خود سے یہ عہد کیا تھا کہ ایک بار تو ضرور ان کے محبت بھرے سندیسے ان ہواؤں تک پہنچاؤں گی لیکن جتنی بار بھی خواہش اور کوشش کی یہ ممکن نہیں ہوا بلکہ جتنی بار بھی ہندوستان جانا ہوا لوگوں نے منع کیا کہ کشمیر کا ذکر تک نہ کیا جائے ورنہ اور کہیں کا ویزا بھی نہیں ملے گا۔
دلی، آگرہ،جے پور، ممبئی، بنگلور، میسور، حیدرآباد، اورنگ آباد، اور ایلورا، ایجنسٹا، لکھنئو، الہ آباد اور خدا جانے کہاں کہاں گھوم لئے لیکن زیارت نہیں ہوئی تو سری نگر اور ڈل لیک کی۔ آج سے دس بارہ سال پہلے پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے ریٹائرڈ ایڈمرل رام داس نے کراچی پریس کلب میں مجھ سے کہا تھا ”آپ کشمیر ضرور جا سکیں گی، یہ میرا وعدہ ہے“ لیکن اس کے بعد اگلی پیس کانفرنس میں نرملا دیش پانڈے سے خصوصی سفارش کے باوجود یہ امید بر نہیں آئی۔
اب پھر سے” امن کی آشا“ کا بڑا چرچا ہے دونوں ملکوں کے دو بڑے میڈیا گروپ (جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا) لوگوں کو قریب لانے کے جتن کر رہے ہیں اسی حوالے سے جنگ میں شائع ہونے والی نواب شاہ کے پروفیسر راج کنور کی خوبصورت نظم ”مجھے ویزا نہیں ملتا“ نے میرے دکھوں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ میرٹھ سے وابستہ ان کی یادوں،کنویں کی منڈیر پر جاگی محبت کی پہلی پہلی کسک اور دو منتظر آنکھوں کا غم اس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے اور نہ مل سکنے کی حسرت ایسی ہے جو شاید دونوں ملکوں کے بہت سے لوگوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔ دونوں ملکوں کے لوگوں کی کہانی تو ایک ہی ہے، ہر انسان اپنی پیدائشی سرزمین یا مٹی کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے، اپنے پیچھے رہ جانے والی یادوں کو عمر بھر تلاشتا رہتا ہے، محبت کے رشتوں کی پیاس اسے زندگی بھر ترساتی ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اپنی خواہش سے یا مجبوری کے تحت کئے گئے فیصلوں کو وہ بدلنا بھی نہیں چاہتا بلکہ اکثر صورتوں میں جب اسے ملنے جلنے کی آزادی نصیب ہوتی ہے تو وہ اپنے فیصلوں پر شکر بھی بجا لاتا ہے لیکن جہاں پابندیاں عائد کر دی جائیں تو خواہشیں حسرتین بن جاتی ہیں اور پابند کرنے والوں کے خلاف دل غم و غصے سے بھر جاتے ہیں۔
اسی لئے عوامی سطح پر یہ کوششیں جاری رہتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ آپس کی غلط فہمیاں کم سے کم پروان چڑھیں لیکن حکمرانوں، سیاستدانوں اور شاید دونوں ملکوں کی افواج کے ایجنڈے بھی کچھ اور ہیں اس لئے امن کی کوئی کوشش پروان چڑھنے نہیں پاتی اور مجھ جیسے اور پروفیسر راج کنور جیسے لوگ زندگی بھر ان جگہوں، ان لینڈ مارکس یا زندگی کی نشانیوں کو دیکھنے کی حسرت میں رہتے ہیں، جن سے ان کی زندگی کی خوشیاں اور غم عبارت تھے۔
ویسے آپ کو راز کی بات بتاؤں، ماضی میں سفر ایک بڑا ہی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ میرے میاں اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ہندوستان کے سفر میں انہوں نے اپنے بچپن کی ساری ہی یادوں سے ملاقات کر لی لیکن نتیجہ کیا ہوا۔ لوگوں اور جگہوں سے وابستہ وہ رومانس اور اس کی کسک، عجیب بے معنی ہو کر رہ گئی لیکن یہ تو تجربے کے بعد کی باتیں ہیں۔

No comments: