15 October 2012

آزاد ریاست جموں و کشمیر میں آئینی اصلاحات

محمد نذیر تبسم

24 ِ اکتوبر 1947 تک ریاست جموں کشمیر بشمول شمالی سرحدی صوبہ گلگت بلتستان چوراسی ہزار مربع میل سے فزوں تر رقبے پر محیط تھی جس میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی جبکہ ایک ہندو ڈوگرا مہاراجہ اُس پر حکمران تھا۔ ریاست اندرونی طور پر مکمل خود مختار تھی تا ہم بالا دستی (suzrainty ) تاج برطانیہ کو حاصل تھی، یعنی خارجہ امور کی نگرانی انگریز کرتے تھے

۔24  ِ اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کا تختہ اُلٹ دیا گیا تو بتیس ہزار مربع میل آزاد علاقے پر آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر قائم ہوئی جو مہارجہ کشمیر کی جانشین حکومت قرار پائی۔اِس میں اٹھائیس ہزار مربع میل علاقہ گلگت بلتستان کا تھا اور باقی چار ہزار مربع میل سے کچھ اوپر موجودہ آزاد جموں کشمیر ہے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک ان علاقوں کے لوگ حقوق کے لیے بڑی صبر آزما جِد و جہُد کرتے چلے آئے ہیں۔گلگت بلتستان کے لوگ تو ایک طویل عرصے تک ایجنسی نظام کے تحت فرنٹیئر کرئمز ریگولیشنز جیسے کالے قوانین کی چھڑی سے ڈھور ڈنگروں کی طرح ہانکے جاتے رہے، جس کی تفصیل زیر تحریر مضمون کی حدود سے باہر ہے تاہم آزاد کشمیر میں حقوق کی داستان بڑی شرح و بست کے ساتھ بیان کی جائے گی، تا کہ آزاد جموں کشمیر عبوری آئین ایکٹ1974 میں ترامیم کے لیے بنائی جانے والی کل جماعتی کمیٹی کے سامنے با معنی تجاویز رکھی جا سکیں۔

ابتدا ہی میں یہ واضح کرتا چلوں کہ متنازعہ حیثیت کے باعث اِس علاقے کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہو سکتا کیونکہ یونائٹڈ نیشنز کمیشن برائے پاک بھارت (UNCIP ) نے اپنے 13 ِ اگست 1948 کی قراداد میں یہ قرار پایا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کے علاقے کا انتظام و انصرام ’’مقامی حکومت‘‘ کے تحت کمیشن کی نگرانی میں ہو گا۔آئندہ میں اسی بنیادی حقیقت کو برائے حوالہ استعمال کروں گا۔
آئین ِ پاکستان کی رو سے حکومت پاکستان کو آزاد جموں کشمیر پر حکمرانی کا اختیار حاصل نہیں۔ کیونکہ اس کے آرٹیکل 257 میں لکھا ہے کہ ساری ریاست کے الحاق کے بعد ریاست جموں و کشمیر اور پاکستان کے مابین تعلقات کی نوعیت کا تعین ریاست کے لوگوں کی منشا کے مطابق ہو گا۔اِس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ آزاد جموں کشمیر میں کم از کم اندرونی طور پر مکمل خود مختار حکومت ہونی چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی آزاد کشمیر کے ہر شعبہ انتظامیات میں موجودگی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔

شروع سے ہی حکومت پاکستان اپنے لینٹ افسروں کے ذریعے، جو حکومت آزاد کشمیر کے سامنے جواب دہی سے مستشنٰٰی ہیں، کے ذریعے اس علاقے پر اپنی مظبوط گرفت رکھے ہوئے ہے۔
اکتوبر 1947 سے 31 دسمبر 1948 تک ابتداً آزاد کشمیر و پاکستان کے پیرا ملٹری گروہ اور بعد ازاں پاکستانی فوج ’’جنگِ آزادی‘‘ میں مصروف رہے، اس لیے اس عرصے میں حکومت ِ آزاد جموں کشمیر کی ذمہ داریوں اور اُس کے اختیارات کا 
تعین ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ 

تاہم حکومت فی نفسہ نہ صرف اپنا وجود رکھتی تھی بلکہ اُس نے عمومی و عدالتی انتظامیہ قائم کر رکھی تھی۔ اور اس کے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت جس کا دارالحکومت مظفرآباد تھا، حکومت پاکستان کے احکامات کے تحت بنائی، ہٹائی اور چلائی جاتی تھی۔ اس طرح آزاد جموں کشمیر کے عوام بنیادی انسانی و سیاسی حقوق سے مکمل طور پر محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ صدارتی طرز حکومت تھی تاہم گورنمنٹ ایکٹ1960 کسی قدر جمہوری تھا جو کہ زیادہ دیر نہ رہ سکا۔ 

بعد ازاں آزاد جموں کشمیر ایکٹ 1970 کا نفاذ ہوا جو آئین ِ آزاد جموں کشمیر قرار
 پایا جس کے تحت آزاد کشمیر کو لوگوں کے براہ راست ووٹ سے منتخب حکومت اور قانون ساز اسمبلی ملی۔ اس کے تحت آزاد جموں کشمیر میں ایک صدر ہو گا جو کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں کے برا راست ووٹ سے منتخب ہو گا۔ اس کے تحت آزاد جموں کشمیر اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اس ایکٹ میں 
ترمیم کر سکتی ہے۔

 تمام انتظامی اختیارات صدر کو حاصل تھے جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے
 لیے تین وزراء پر مشتمل کابینہ بنا سکتا تھا۔ اسمبلی کو قانون سازی کے تمام اختیارات حاصل تھے البۃ وہ دفاع و سلامتی، کرنسی اور امور خارجہ کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کی مجاز نہ تھی۔

 چنانچہ1971 میں اس اسمبلی نے حکومتِ پاکستان سے پوچھے بغیر اس ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے لوگوں کو بنیادی حقوق دئیے ، ہائیکورٹ میں رِٹ پٹیشن کا اختیار دیا اور سپریم کورٹ قائم کی جس میں ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے، صدر کو اعلیٰ عدالتوں کے جج مقرر کرنے کا اختیار دیا۔ یہاں تک کہ حکومتِ آزاد کشمیر کو غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی امداد کے سلسلے میں انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات بھی دیئے جس کے باعث اندرونی خود مختاری نئی بلندیوں کو چھونے لگی۔

1974 میں منتخب قانون ساز اسمبلی نے آزاد جموں کشمیر گورنمنٹ ایکٹ 1970منسوخ کرکے آزادجموں کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 نافذ کیا۔ حکومتِ پاکستان نے یونائٹڈ نیشنز کمیشن برائے پاک بھارت کی قرارداد کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایکٹ1970 کی تنسیخ اور ایکٹ1974 کے نفاذ کی منظوری دی۔ایکٹ1974 کے تحت ایک نیا ادارہ آزاد جموں کشمیر کونسل وجود میں لایا گیا جسے انتظامی و قانون سازی کا اختیار دیا گیا اور آج بھی موجود ہے۔ اِس کا چیئرمین وزیر اعظم (صدر یا جو بھی چیف ایگزیکٹو ہو) پاکستان ہے۔ اس کے تحت باون شعبے کشمیر کونسل کو دیئے گئے ہیں اور اس کے علاوہ بعض اہم انتظامی اختیارات بھی جن میں ہائیکورٹ و سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے اختیارات 
صدر آزاد کشمیر سے لے کر وزیر اعظم (چیف ایگزیکٹو) کو دے دیئے گئے ۔ 

چنانچہ کشمیر کونسل کا چیئر مین (وزیر اعظم پاکستان) اعلیٰ عدالتوں کے جج اور چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے کے علاوہ وفاقی نوکر شاہی سے آزاد کشمیر کا چیف سیکرٹری مقرر کرتا ہے جو آزاد کشمیر کی انتظامیہ پر کلی طور پر با اختیار ہوتا ہے، اسی طرح بجٹ معاملات پر کنٹرول کے لیے فنانس سیکرٹری، لاء اینڈ آرڈر قائم رکھنے کے لیے انسپکٹر جنرل پولیس، تمام طرح کے مصارف کی نگرانی کے لیے اکاؤٹینٹ جنرل اور ترقیاتی منصوبوں کو چلانے کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری بھی وفاقی نوکر شاہی سے آزاد کشمیر میں تعینات کرنے کا اختیار بھی کونسل کے چیئرمین کو دیا گیا ہے۔ یہ تمام افسران ’’لینٹ آفیسرز‘‘ کہلاتے ہیں۔ کشمیر کونسل کے بارہ ممبران میں سے چھ آزاد کشمیر کے منتخب اور چھ پاکستان کی پارلیمنٹ سے نامزد ہوتے ہیں۔
 
جو شعبے کشمیر کونسل کو دیئے گئے ہیں ان میں بجلی و پن بجلی کی پیداوار، ٹورازم، پاپولیشن پلاننگ، بنکنگ، انشورنس، سٹاک ایکسچینج، ٹریڈنگ کارپوریشنز، ٹیلی کیمونیکیشن، پلاننگ برائے اکنامک کو آرڈینیشن، ہائی ویز، کان کنی، تیل و گیس، صنعتی ترقی، اخبارات وغیرہ شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے بڑے ذرائع آمدن ٹیکسیشن و اکسائز اور کچھ اور ٹیکس کشمیر کونسل کو منتقل کیے جانے کے باعث کونسل کو آزاد کشمیر کی مالیات اپنے قابو میں رکھنے کے قوی اختیارات مل گئے ہیں۔ ہائیکورٹ و سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے اختیارات کے علاوہ چیف الیکشن کمشنراور آڈیٹر جنرل کے تقرر کے اختیارات بھی حکومت آزاد کشمیر سے لے کر چیئرمین کشمیر کونسل ( وزیر اعظم پاکستان) کو دے دیئے 
گئے ہیں۔ 

ایکٹ1974 کی دفعہ 21 کے تحت جو کوئی بھی پاکستان کا وزیر اعظم یا چیف
 ایگزیکٹو ہو گا وہ جموں کشمیر کونسل کا چیئرمین ہو گا۔ کونسل کے تمام انتظامی اختیارات چیئرمین کے پاس ہوں گے ۔ اس طرح باون شعبوں کے انتظامی اختیارات اور اعلیٰ عہدوں کو پُر کرنے کے اختیارات عملاً حکومت پاکستان کو منتقل ہو گئے ہیں، حکومت آزاد کشمیر محض ایک شو کیس کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کی اہمیت و حیثیت بہ اعتبار اندرونی خود مختاری کچھ نہیں۔

کشمیر کونسل کی تشکیل کی بنیادوں میں بہت سے نقائص پائے جاتے ہیں۔باون شعبوں اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں ، چیف الیکشن کمشنر، آڈیٹر جنرل وغیرہ کے تقرر اور اُنہیں سبکدوش کرنے کے جملہ انتظامی اختیارات کونسل کے صرف چیئرمین کو حاصل ہیں جبکہ کونسل کے منتخب یا نامزد ممبران کا ان معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں۔ چیئرمین کا تقرر بلا انتخاب ہوتا ہے اور وہ آزاد کشمیر سے متعلق کسی معاملے میں آزاد کشمیر کے کسی منتخب ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا، یہ الگ بات کہ منتخب وزیر اعظم ہونے کی صورت میں وہ پاکستانی ووٹروں کو جواب دہ ہوتا ہے۔

جیسا کی صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کونسل کا چیئرمین آزاد کشمیر کے عوام کا منتخب نمائندہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اُن کے سامنے اپنے کسی فعل کے لیے جواب دہ ہو تا ہے، جس سے صاف عیاں ہے کہ کشمیر کونسل میں جمہوریت نام کی کسی چیز کا گزر ممکن نہیں۔ کس قدر تفاوت ہے کہ مظفر آباد میں جس قدر بچے کھچے انتظامی اختیارات ہیں وہ تو منتخب کابینہ کے پاس ہیں جو آزاد کشمیر اسمبلی اور وہاں کے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں جبکہ کشمیر کونسل میں یہ گنگا اُلٹی بہتی ہے اور یہ صورت حال دور جدید کے سیاسی جمہوری تقاضوں کے سرا سر منافی ہے۔اس طرح آزاد جموں کشمیر کے عوام کو اُن کے سیاسی حقوق سے محروم کر 
دیا گیا ہے۔

کشمیر کونسل باون شعبوں پر مکمل اختیار رکھتی ہے لیکن اُس کے کار ندے آزاد کشمیر کی منتخب اسمبلی یا کشمیر کونسل کے منتخب ممبران کو جواب دہ نہیں ۔ کونسل آزاد کشمیر سے انکم ٹیکس اکٹھا کرتی ہے اور اپنے اخراجات کے لیے اس میں سے 20 فیصد کاٹ لیتی ہے۔مثال کے طور پر سال2010-11 کے دوران اس نے آزاد کشمیر سے چھ بلین روپے انکم ٹیکس اکٹھا کیا اور اس میں سے 1,20 بلین روپے اپنے لیے کٹوتی کر لیے۔

آپ یہ پڑھ کر یقیناً حیران ہو گے کہ آزاد کشمیر کا یہ ریوینو آزاد کشمیر کو یکمشت 
نہیں دیا جاتا بلکہ کشمیر کونسل میں تعینات وفاقی نوکر شاہی ماہوار رقم جاری کرتی ہے۔ کشمیر کونسل کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی من مانی سے جس قدر رقم چاہے مختص کرے اور اس کے لیے اُسے نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی سے منظوری بھی نہیں لینا پڑتی۔اس طرح کونسل آزاد کشمیر کی رِٹ سے باہر اور پاکستانی عدلیہ کی دست برد سے آزاد ہے۔

کشمیر کونسل میں آزاد کشمیر اور پاکستان کو علیٰحدہ علیٰحدہ نمائندگی دی گئی ہے۔ ایک طرف پاکستانی وزیر اعظم (چیف ایگزیکٹو) اور اُس کے نامزد چھ ممبران ہیں۔ دوسری طرف آزاد کشمیر اسمبلی کے منتخب شدہ چھ ممبران ہیں۔ کشمیر کونسل آزاد کشمیر کے لیے قانون ساز ادارہ ہے اور یہی وہ ادارہ ہے جو کشمیری عوام پر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

 کونسل اپنی ساخت کے اعتبار سے نمائندہ حیثیت کی حامل نہیں کیونکہ اِس کا بھرپور جھکاؤ حکومت پاکستان کی جانب ہے کیونکہ چیئرمین اور چھ وفاقی وزرا/ایم این اے ایک ہی سیاسی پارٹی یا گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح کونسل کے اند ر کسی بھی معاملے پر اُن میں متحد رہنے کے گنجائش کہیں زیادہ ہے جبکہ آزادکشمیر اسمبلی کے چھ منتخب کردہ نمائندے دو یا تین پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس لیے اَن چھ منتخب ممبران کا کردار بمقابلہ حکومت پاکستان کی نمائندگی کرنے والی بھاری بھرکم شخصیات کوئی وقعت یا اہمیت نہیں رکھتا۔اس طرح قانون سازی اور ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں آزاد کشمیر اسمبلی کے چھ 
منتخب کردہ ممبران کشمیر کونسل کو بے وقعت و بے حیثیت بنا دیا گیا ہے۔

اب آئیے کشمیرکونسل کی کار کردگی کی طرف۔کچھ حقائق بطور ثبوت پیش کرتا ہوں جن سے صاف ظاہر ہو گا کہ 1974 سے لے کر آج تک کشمیر کونسل کی کار کردگی بالکل صفر رہی۔ بنکنگ ، ٹریڈنگ کارپوریشنز، پلاننگ انیڈ اکنامک کو آرڈینیشن، صنعتی ترقی، ہائیڈرو پاور جنریشن اور انشورنس کشمیر کونسل کے شعبہ جات ہیں لیکن کونسل نے آج تک اِن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اِن اہم شعبہ جات میں بڑھوتری مکمل جمود کا شکار رہی۔
 
ٹورازم، بجلی اور ٹیلی فون کونسل کے شعبہ جات ہیں لیکن گزشتہ چھتیس سالوں کے دوران اُس نے متعلقہ شعبوں سے اِن کا چارج تک لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ صریحاً آئین شکنی ہے۔ 
آئین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بجٹ ہر سال 30 ِ جون سے پہلے پاس کیا جائے جبکہ ہر سال عموماً اس تاریخ سے پانچ چھ ماہ بعد بجٹ پاس ہو تا ہے اور اس طرح مہینوں تک غیر قانونی مصارف کا سلسلہ بلا روک ٹوک چلتا رہتا ہے جو آئین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
 
کونسل کی ذمہ داری کے باوجود اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی آسامیاں سالوں تک پُر نہیں کی جاتیں، پچھلے سال ، دسمبر2009 سے فروری 2011 تک چودہ ماہ کے دوران ہائیکورٹ عملاً غیر منفعل رہی کیونکہ محض چیف جسٹس ہی اپنی کرسی پر براجمان رہے۔ اُس سارے عرصے کے دوران کسی جج کا تقرر عمل میں نہیں لایا گیا۔ اس طرح انصاف کے دروازے عملاً بند رہے۔ ہزاروں کیس معرض التوا میں پڑے رہے اور مزید کا انبار لگتا رہا۔ سپریم کورٹ کے دو میں سے ایک جج کی آسامی آٹھ ماہ تک خالی رہی۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔1980 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بغیر مقدمہ چلائے سبکدوش کر دیا گیا اور اُس کی جگہ ایک قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ تاہم دو سالوں تک کسی جج کا تقرر نہیں ہوا۔ اس عرصے میں سپریم کورٹ عضو معطل بنی رہی۔

 جسٹس راجہ محمد خورشید کو سات سالوں تک قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر رکھا گیا۔ حال ہی میں ہائیکورٹ کے جسٹس محمد نواز خان کو چار سالوں تک قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر رکھا گیا۔ 

جب جسٹس سردار محمد اشرف نے بطور چیف الیکشن کمشنر اپنی تین سال کی مدت پوری کر لی تو کونسل نے دو سال سے زائد عرصہ تک اُن کا جانشین نامزد نہ کیا ،مطلب یہ کہ ا س سارے عرصے میں سردار اشرف ہی مسلسل چیف الیکش 
کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔

اپنے قیا م کے بعد کونسل نے بعض ایسے اقدامات کیے جو آزاد جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ جزوی ادغام اور باشندگان ریاست کو غیر ملکی قرار دیے جانے 
کے مترادف تھے۔ان میں سے بعض اقدامات کچھ اس طرح کے ہیں:

* پنجاب کی بنکنگ کورٹس اور بنکنگ ٹریبونلز کو اختیار دیا گیا کہ وہ آزاد کشمیر کے مقدمات کی سماعت کریں، نتیجے کے طور پر وہ مقدمات جو آزادکشمیر میں زیر ِ سماعت تھے ،
اُنہیں پنجاب میں منتقل کیا گیا۔
* اس طرح کے اقدامات بعض دیگر اداروں کے بارے میں بھی کیے گئے۔ مثال کے طور پر جہلم (پنجاب) میں تعینات ایمپلائیز اولڈ ایج بینفٹ انسٹی ٹیوشن کے ایک
افسر کو میرپور کے معاملات نبٹانے کا اختیار دیا گیاتو اُس نے میرپور کے تجارتی اداروں کونوٹسز جاری کیے۔
* آئین کی دفعہ 21 کا یہ تقاضا ہے کہ حکومت پاکستان کا ایک وزیر اور آزاد جموں کشمیر کے مشیر (تین سے زیادہ نہیں)کونسل سیکرٹریٹ کے انچارج ہوں گے لیکن اس
قانونی تقاضے کی تواتر کے ساتھ ٖخلاف ورزی کی جاتی رہی۔مشیروں کی آسامیاں بعض اوقات مہینوں بلکہ سالوں تک خالی رکھی جاتی ہیں اور کونسل میں آزاد کشمیر کو
نمائندگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔اور جب مشیروں کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے تو اُنہیں اہم محکمے نہیں دیے جاتے۔ مکمل اختیارات وزیر امور کشمیر و گلگت و بلتستان کے
ہاتھ میں ہوتے ہیں(ٓن کے ایک حالیہ بیان پر تبصرہ اگلی سطور میں کروں گا)۔ اس طرح آزاد جموں کشمیر کے رہنے والوں کا کشمیر کونسل میں کوئی موثر کردار نہیں۔
* کشمیر کونسل کا سیکرٹریٹ اسلام آباد میں واقع ہے۔ کونسل نے آزاد کشمیر میں کوئی ریجنل آفس حتیٰ کہ ایک ریسٹ ہاوس تک قائم کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کشمیر
افیئرز ڈویژن کا سیکرٹری بلحاظ عہدہ کشمیر کونسل کا سیکرٹری ہوتا ہے جس کے دفتر میں آزاد کشمیر کا کوئی بھی افسر تعینات نہیں ۔
* پاکستان کا فیڈرل سروس کمشن ، آزاد جموں کشمیر کونسل کے لیے پبلک سروس کمشن کے طور پر کام کرتا ہے۔
* حکومت پاکستان کے بورڈ آف ریوینو کے افسران کو آزاد کشمیر کے محکمہ انکم ٹیکس میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے جہاں کشمیر کونسل کے بننے سے پہلے آزاد کشمیر کے افسران تعینات
ہوتے تھے، آزاد کشمیر کے کہیں زیادہ سینئر افسران کو پاکستان کے ان جونیئر درجوں کے افسران کے ماتحت رہنے پر مجبور ہونا پرتا ہے۔
* کشمیر کونسل کے مقدمات کو نبٹانے کے لیے مستقل وکیلِ لاہور سے مقرر کیا گیا ہے ا ور اس کے علاوہ بھی جب کبھی کونسل کو وکیل کی ضرورت پیش آتی تو وہ آزاد کشمیر
نہیں بلکہ بیرونِ آزاد کشمیر سے لیا جاتا ہے۔
* کشمیر کونسل وفاق پاکستان کے قوانین کو اختیار کرتی ہے، جن میں یہ قرار پایا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کوئی آئینی ترمیم ہو گی، ترمیم شدہ قانون از خود آزاد کشمیر پر بھی
لاگو ہو گا۔ اس میں یہ بھی قرار پایا ہے کہ جب بھی حکومت پاکستان کوئی قاعدہ بنائے گی یا کسی قاعدے میں ترمیم کرے گی تواُس کا اطلاق بھی از خود آزاد کشمیر پر ہو
گا۔قانون سازی کے اِس طرز عمل سے آزاد جموں کشمیر کی اپنی مقننہ کو مکمل طور پر قانون سازی کے عمل سے بیگانہ کر دیا گیا ہے۔

اس طرح قانون سازی ، ٹیکسوں کے نفاذ اور انتظامی اختیارات کا آزاد جموں کشمیر کونسل کو تفویض کیا جانا کسی طور پر بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔مندرجہ بالا حقائق سے صاف واضح ہو تا ہے کہ آزاد کشمیر کی حیثیت کیا ہے، اور یہ کس قدر ’’آزاد ‘‘ہے، یہاں لوگوں کو اُن کے سیاسی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور وہ یوں کہ کشمیر کونسل جن باون شعبوں کو اپنے قبضہ اختیار میں رکھے ہوئے ہے ، اُس سے آزاد کشمیر حکومت کو اپنے علاقے پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔
قبل اس کے کہ اِ س صورت حال میں آزاد جموں کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 میں ترامیم کے لیے اپنی تجاویز پیش کروں، مجھے کچھ باتیں جملہ ہائے معترضہ کے طور پر کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
چند ہفتے قبل آزاد کشمیر کے احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس مظہر کلیم نے بعض وفاقی بیوروکریٹس جو کشمیر کونسل میں تعینات ہیں کو اُن کے خرد بُرد اور بد عنوانیوں کے سلسلے میں نوٹس جاری کئے تو حکومت پاکستان اُن کے بچاؤ کے لیے میدان میں کود پڑی۔ وزیر اعظم پاکستان نے صدر آزاد کشمیر کو حکم دیا کہ وہ ایک آرڈیننس جاری کرے کہ کشمیر کونسل کے وفاقی نوکر شاہی کے کار رندوں کو حکومت آزاد کشمیر کے احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، صدر آزاد کشمیر نے تا حال وزیر اعظم پاکستان کا یہ حکم تو نہیں مانا، حکومت آزاد کشمیر نے ایک حد تک مزاحمت جاری رکھی لیکن بالآخر ہتھیار ڈال دیے اور جسٹس مظہر کلیم کو احتساب بیورو سے الگ کر دیا گیا، آزاد کشمیر کے طول و عرض میں پہلے سے موجود بے چینی میں جب بہت اضافہ ہو گیا تو وفاقی وزیر امور کشمیر نے آئینی اصلاحات کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلائی۔ کانفرنس کے اختتام پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے میاں منظور وٹو نے مغربی ذرائع ابلاغ کی مذمت کی جو ’’آزاد جموں کشمیر‘‘ کو ’’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر‘‘ کہتے ہیں۔ اوپر دیے گئے مکمل حقائق کی روشنی میں کوئی بھی غیر جانبدار شخص بہ آسانی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ آزاد کشمیر کتنا ’’آزاد‘‘ ہے۔ پاکستان بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو ’’ؓبھارتی مقبوضہ کشمیر‘‘ کہتا ہے۔ بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر‘‘ کہتا ہے، جبکہ مغربی میڈیا ان دونوں ہمسایہ ملکوں کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حسن ِ ادا (euphemism )کو برقرار رکھ کے ’’بھارت /پاکستان کے زیر انتظام کشمیر‘‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو کشمیر کی بندر بانٹ کرنے والے ہمسایوں کی عزت نفس قائم رکھنے کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ اگر پھر بھی وزیر موصوف اس کی مذمت کریں تو کیا کیا جاسکتاہے۔
اس صورت حال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آزاد کشمیر میں بے چینی کی بڑھتی ہوئی لہر کو بروقت کنٹرول کرنے کے لیے آزاد جموں کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 میں درج ذیل ترامیم کی جائیں:
* آزاد جموں کشمیر کونسل کو بحال رکھا جائے تاہم اس کے ذمے ایکٹ1974 کی دفعہ 31 (3 ) میں دیے گئے شعبوں کے سلسلے میں حکومت پاکستان اور حکومت آزاد
جموں کشمیر کے مابین رابطے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ان شعبوں میں یونائٹڈ نیشنز کمیشن برائے پاک و ہند کی قرارداد میں دیئے ہوئے شعبہ جات یعنی دفاع و سلامتی،
کرنسی، امور خارجہ اور بین الاقوامی تجارت شامل ہیں۔
* کونسل وزیر اعظم پاکستان، پاکستانی اپوزیشن لیڈر ، تین وفاقی وزراء ، وزیر اعظم آزاد کشمیر، آزاد کشمیر کے اپوزیشن لیڈر اور آزاد کشمیر اسمبلی کے منتخب کردہ تین ممبران کونسل
پر مشتمل ہونی چاہیے۔
* انتظامیات اور قانون سازی سے متعلق تمام اختیارات حکومت آزاد کشمیر و کشمیر اسمبلی کو واپس لو ٹا دیے جائیں۔ ایکٹ 1974 کی دفعہ 33 کے مطابق چونکہ ایسا صرف
حکومت پاکستان کی رضا مندی سے ہی ممکن ہے اس لیے حکومت پاکستان کو آزاد کشمیر کے لوگوں کے سیاسی حقوق کے بہترین مفاد میں اس پر بہر طور 
رضا مندہوناچاہیے۔
* اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار حکومت آزاد کشمیر کو لوٹا دینا چاہیے اور اس ضمن میں ایک معقول و موزوں ادارہ قائم کرنے کا طرز عمل اختیار کیا جانا چاہیے، اور
اس مقصد کے لیے آئین پاکستان کی اٹھارویں اور اُنیسویں ترامیم کی طرح ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جانا چاہیے۔
* صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک خود مختار الیکشن کمشن قائم کیا جائے اور چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو تفویض کیا جائے جو سرکاری و اپوزیشن کے ارکان اسمبلی پر مشتمل ہو۔
* آزاد کشمیر کے نئے آئین میں کابینہ کے وزراء کی تعداد مقرر کر دینی چاہیے جو ایک مخصوص فیصد سے زیادہ نہ ہو اور دو سے زیادہ مشیروں کی تعداد پر بھی پابندی لگا دینی
چاہیے۔
* صدر کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر پندرہ روز کے اندر اپنی منظوری دینے کا پابند بنا دیا جائے اور اس عرصے کے گزرنے کے بعد اگر صدر منظوری نہ دے تو سمجھ لیا جائے کی
منظوری دے دی گئی ہے۔ صدر کسی ایڈوائس کو برائے نظر ثانی وزیر اعظم /کابینہ کو واپس بھیج سکتا ہے، تاہم نظر ثانی یا عدم نطر ثانی کی صورت میں صدر کو منظوری دینے کا
پابند ہونا چاہیے۔
* پاکستان کے افسران کو آزاد کشمیر، اور آزادکشمیر کے افسران کو پاکستان میں بطور مستعارالخدمتی تعینات کیا جا سکتا ہے تاہم ہر دو کو اپنی نئی جائے تعیناتی پر مقتدر اداروں کے
سامنے جوابدہ اور مقامی رولز آف بزنس کے تحت ڈسپلن کا پابند ہونا چاہیے۔

قبل اس کے کہ خدا نخواستہ مشرقی پاکستان یا بلوچستان جیسے حالات آزاد کشمیر میں بھی پیدا ہوں، لوگوں کی محرومیوں کو دور کرکے، ان کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق بحال کرکے بے چینی کی فضا کو کم کیا جا سکتا ہے۔

No comments: