بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفیم نے خبردار کیا ہے کہ کلائمیٹ چینج یا آب ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے اس صدی میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ بھوک و افلاس کی صورت میں نمودار ہوگا۔
اس ہفتے شروع ہونے والی جی ایٹ کانفرنس سے قبل شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے لوگ غریب تر ہو رہے ہیں جبکہ غیر متوقع موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات میں اضافہ اور غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔
آکسفیم کے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق مشیر سیویو کارویلو کا کہنا ہے کہ زمینی پیداوار پر انحصار کرنے والے لاکھوں افراد کو ان تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑے گی۔
آکسفیم نے جی ایٹ راہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو سنہ دو ہزار بیس تک انیس سو نوے کی سطح سے کم سے کم چالیس فی صد کم کریں۔
تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کی مدد کے لیے ڈھائی کھرب ڈالر کی رقم مختص کی جائے۔
انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونا والا دھواں زمین کے گرد کاربن ڈائی آکسائڈ کے غلاف کی موٹائی میں اضافہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں سورج کی گرمی فضا میں داخل تو ہوجاتی ہے مگر خلا میں واپس نہیں جا سکتی۔
اس عمل کے نتیجے میں زمین کا درجۂ حرارت بتدریج بڑھ رہا اور آب و ہوا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر درجۂ حرارت میں اس اضافہ پر قابو نہ پایا گیا تو زمین پر تباہ کن موسمی تبدیلیاں پیدا ہوں گی جن میں سیلاب، سمندری طوفان اور خشک سالی شامل ہے۔
اس ہفتے شروع ہونے والی جی ایٹ کانفرنس سے قبل شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے لوگ غریب تر ہو رہے ہیں جبکہ غیر متوقع موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات میں اضافہ اور غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔
آکسفیم کے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق مشیر سیویو کارویلو کا کہنا ہے کہ زمینی پیداوار پر انحصار کرنے والے لاکھوں افراد کو ان تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑے گی۔
آکسفیم نے جی ایٹ راہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو سنہ دو ہزار بیس تک انیس سو نوے کی سطح سے کم سے کم چالیس فی صد کم کریں۔
تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کی مدد کے لیے ڈھائی کھرب ڈالر کی رقم مختص کی جائے۔
انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونا والا دھواں زمین کے گرد کاربن ڈائی آکسائڈ کے غلاف کی موٹائی میں اضافہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں سورج کی گرمی فضا میں داخل تو ہوجاتی ہے مگر خلا میں واپس نہیں جا سکتی۔
اس عمل کے نتیجے میں زمین کا درجۂ حرارت بتدریج بڑھ رہا اور آب و ہوا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر درجۂ حرارت میں اس اضافہ پر قابو نہ پایا گیا تو زمین پر تباہ کن موسمی تبدیلیاں پیدا ہوں گی جن میں سیلاب، سمندری طوفان اور خشک سالی شامل ہے۔
(Source BBC Urdu 15th July 2009)
No comments:
Post a Comment