13 January 2010

ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلی


پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور میں شدید دھند ریکارڈ کی گئی ہے
موسمیات اور ماحولیات کے ماہرین کہنا ہے پاکستان اور انڈیا کے بعض میدانی علاقے ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے ایک ایسے موسمیاتی چکر میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے میں تاخیر انسانی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے وسطی اور جنوبی علاقے، سندھ کا کچھ علاقہ، ہندوستانی پنجاب ،ہریانہ اور راجھستان کے کچھ حصے براہ راست اس موسمی چکر کی زد میں ہیں۔
بیشتر علاقوں میں دھند چھائی رہتی ہے اور سردی کے دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ کئی برس سے ان علاقوں میں دھند پیدا ہوجاتی ہے جو سردی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان سمیت جنوبی ایشیا النینو نظام سے متاثر ہے۔اس موسمیاتی خرابی کی وجہ سے ہوا کا دباؤ مخالف سمیت میں بنتا ہے اور بارشوں کا نظام متاثر ہوتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے میدانی علاقوں میں اس برس بارشیں ماضی کی نسبت تیس فی صد تک کم ہوئی ہیں اور بارشوں کی یہی کمی دھند میں اضافے کا سبب ہے۔
لاہورکی کنیئرڈ کالج یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر نگہت خان کا کہنا ہے کہ’ ان علاقوں میں چھائی دھند فوگ نہیں دراصل سموگ ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ دھند تو پہاڑی علاقوں میں سخت سردی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ لاہورسمیت مختلف شہروں میں پیدا ہونے والی دھند دراصل گاڑیوں اور کارخانوں کے دھویں سے پیدا ہونے والا کاربن اور دوسری مضر صحت گیسیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھند کو تو رات کے آخری پہر شروع ہوکر صبح ختم ہوجانا چاہیے لیکن یہ آلود شدہ دھند شام ہوتے ہی شہری علاقوں اور مرکزی شاہرات کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیتی ہیں اور دن میں دس گیارہ بجے تک قائم رہتی ہیں۔
اس دھند نے پاکستان کے میدانی علاقے میں لوگوں کے معمولات زندگی متاثر کیے ہیں۔موٹر وے متعدد بار بند ہوئی، جبکہ لاہور اور اسلام آباد میں ہوائی جہاز کی پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔
ماحولیاتی آلودگی دھوپ کے راستے کی رکاوٹ ہے اور اس کے علاوہ یہ سموگ بادل بنانے کے نظام کو بھی متاثر کرتا ہے
ڈاکٹر نگہت خان
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر محمد اجمل شاہ کا کہنا ہے کہ دھوپ اور بارش سے ہی اس دھند کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر نگہت خان کہتی ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی دھوپ کے راستے کی رکاوٹ ہے اور اس کے علاوہ یہ سموگ بادل بنانے کے نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔
انہوں نے کہ آلودہ دھند دھوپ اور بارش کے راستے کی رکاوٹ بنتی ہے جبکہ دھوپ اور بارش کی کمی مزید آلود دھند کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ دھند کے اس سلسلے سے لاہور جیسے گنجان شہر زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر نگہت خان نے مثال دی کہ نیویارک اور میکسیکو بھی اسی قسم کی آلودہ دھند سے متاثر ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ دھند سے متاثرہ علاقے کے شہری پھیپھڑے اور سانس کے امراض، نزلہ زکام، کھانسی، نمونیہ اور جلد کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر نگہت کاکہنا ہے کہ سردی کا دورانیہ بڑھنے سے خاص طور پر بچے اور بوڑھے متاثر ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر نگہت کنیئرڈ کالج یونیورسٹی کی وائس پرنسپل اور یونیورسٹی شعبہ ماحولیات کی بانی استاد ہیں۔
ڈاکٹرنگہت کا کہنا ہے کہ سردی کے دورانیے میں اضافے کی وجہ سے بوڑھے لوگوں کی اموات کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ڈاکٹر نگہت کا کہنا ہے کہ پچھلے برس دسمبر کے آغاز میں ہی بارشیں ہوگئی تھیں اور دھند کا سلسلہ کم رہا تھا لیکن اس بار یہ کافی تاخیر سے ہورہی ہیں۔
محمکہ موسمیات کے مطابق مغربی ہواؤں کے ساتھ پانی بھرے کچھ بادل پنجاب کے میدانی علاقوں تک پہنچے ہیں۔
منگل کی شام فیصل آباد ڈیرہ غازی خان اور ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں ہلکی بارش بھی ہوئی ہے۔ لاہور سمیت بعض شمالی علاقوں میں آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران میں ہلکی بارش کا امکان ہے لیکن ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ ان علاقوں میں دھند کی عارضی کمی کا سبب ہوگا۔
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹرمحمد اجمل کاکہنا ہے کہ یہ خطہ موسمیاتی النینو اثرات میں ہے اس لیے بارش تاخیر سے اور کم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وسط فروری کے سے یہ خطہ النینو اثرات سے نکلنا شروع ہوگا۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس برس مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق ہوسکیں گی۔
       (Source  BBC URDU)

    No comments: